وہ وقت مری جان بہت دور نہیں ہے
جب درد سے رُک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا _____ اندوہ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن جائیں گے مجھ سے ____ مرے آنسو ____ مری آہیں
چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی
جب درد سے رُک جائیں گی سب زیست کی راہیں
اور حد سے گزر جائے گا _____ اندوہ نہانی
تھک جائیں گی ترسی ہوئی ناکام نگاہیں
چھن جائیں گے مجھ سے ____ مرے آنسو ____ مری آہیں
چھن جائے گی مجھ سے مری بے کار جوانی
شاید مری اُلفت کو بہت یاد کرو گی
اپنے دلِ معصوم کو ناشاد کرو گی
آؤ گی مری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے
اپنے دلِ معصوم کو ناشاد کرو گی
آؤ گی مری گور پہ تم اشک بہانے
نوخیز بہاروں کے حسیں پھول چڑھانے
شاید مری تربت کو بھی ٹھکرا کے چلو گی
شاید مری بے سود وفاؤں پہ ہنسو گی
اِس وضعِ کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہوگا
لیکن دلِ ناکام کو احساس نہ ہوگا
شاید مری بے سود وفاؤں پہ ہنسو گی
اِس وضعِ کرم کا بھی تمہیں پاس نہ ہوگا
لیکن دلِ ناکام کو احساس نہ ہوگا
القصہ مآل غمِ الفت پہ ہنسو تم
یا اشک بہاتی رہو ____ فریاد کرو تم
ماضی پہ ندامت ہو تمہیں یا کہ مسرت
خاموش پڑا سوئے گا واماندۂ اُلفت
یا اشک بہاتی رہو ____ فریاد کرو تم
ماضی پہ ندامت ہو تمہیں یا کہ مسرت
خاموش پڑا سوئے گا واماندۂ اُلفت
______________
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment